انسانی فطرت کا کمال اور اسلام
سوال: انسان، اسلام کو اپنی فطرت کا جزو لاینفک کس طرح بنا سکتا ہے؟ اس کے ذرائع کیا ہیں؟
جواب: اسلام کے بارے میں نظریاتی معلومات کو انسان کے وجدان میں پوشیدہ ان کی حقیقی ماہیت کے مناسب انداز سے محسوس کرنا اور ان معلومات کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت کے رخوں میں سے ایک رخ کی شکل دینا، سب سے پہلے اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ انسان اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ان معلومات پر عملدرآمد کرنا ایسی بنیادی شرط ہے جس کے بغیر چارہ کار ہیں۔ بعض فلاسفہ نے اس جانب ’’عملی عقل‘‘ اور اس طرح کے دیگر مفاہیم کے ذریعے توجہ مبذول کرائی ہے جبکہ صوفیا نے اس پر مختلف انداز اور طریقوں سے توجہ دی ہے جن کو ’’سیر اور روحانی سلوک‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
مثلاً برگسن(Bergson)جیسا فلسفی کہتا ہے کہ احساسات اور وجدانی بصیرت کے ذریعے حقیقت کو پا لینا ممکن ہے، کانٹ(Kant) کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت صرف ’’عقل عملی‘‘ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ چونکہ ان دونوں فلسفیوں نے مغربی ثقافت کی گود میں تربیت پائی ہے اس لیے ان کا حقیقت تک پہنچنا اورنہ پہنچنا اور ان کے طریقے سے ہمارا حقیقت تک پہنچنا ایک اختلافی نقطہ ہوگا لیکن ہم اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے کیونکہ یہ ایک اور مسئلہ ہے۔
اگر آپ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بارے میں پیش کیے جانے والے دلائل کو صرف نظریات تک محدود رکھیں اور عمل کے ذریعے ان کو مضبوط نہ کریں، تو یہ بات ایمان، اسلام اور ان کے خصوصی اصولوں کو بچانے کے لیے کافی نہ ہوگی۔ جی ہاں، مخالف ہوا ہر طرح کی معلومات اور دلائل اور نظریات کو تباہ کرسکتی ہے۔ اس لیے نظریاتی معلومات کوعمل کے اصو کے مطابق نافذ کرنا ضروری ہے۔
ایمان اور عمل صالح : نجات کا رستہ
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم انسان کی نقصان سے خلاصی اور اسفل سافلین میں گرنے سے نجات کو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: :﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ * ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ * إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ﴾ (التین:6-4) (ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اس کی حالت کو پست سے پست کر دیا۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لئے بے انتہا اجر ہے۔)
اس آیت کریمہ میں ایمان و عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے فعل کے صیغے کا استعمال اور جملہ اسمیہ کی بجائے جملہ فعلیہ سے اس بات کا اظہار مقصود ہے کہ نجات حاصل کرنے کے لیے ان دونوں باتوں کا تسلسل اہم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو چاہیے کہ وہ صحابہ کرام کی پیروی کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے ایمان مضبوط کرتا رہے کیونکہ کوئی صحابی اپنے ساتھ سے کہتا تھا: ’’ اجْلِسْ بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً ‘‘ ( ہمارے پاس رکیے تھوڑی دیر کے لیے ایمان تازہ کریں)(1) اور ہمیشہ ایمان کی تجدید اور تقویت کی کوشش کرے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ لوگ کفر اور الحاد سے متعلق مشکلات کو پہلے ہی حل کرچکے ہوں اور ان پر غالب آ کر ان کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ بھی کرچکے ہوں لیکن اس کے باوجود آپ کو کبھی بھی رکنا نہیں چاہیے۔ آپ اس مرتبے پر بس نہ کریں جہاں تک آپ پہنچ چکے ہیں تاکہ ایمان کامیابیاں محفوظ رہیں۔ آپ کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ ایسے مزید وسائل تلاش کریں جن سے ایمان کی تجدید اور ترقی ہو۔
قرآن کریم نے ایمان کے بعد ایسے عمل صالح پر زور دیا ہے جو سالم، دائمی اور نمود و نمائش سے خالی ہو اور اس میں کوئی کمی بیشی بھی نہ ہو کیونکہ عمل صالح کا دائرہ کار بہت وسیع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کی عبادت اور فرمانبرداری سے لے کر والدین کے حقوق اور تمام مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت تک ، وہ تمام اعمال جن کو بجا لانا ضروری ہے۰۰۰۰۰ یہ سب عمل صالح کے دائرے میں داخل ہیں۔اگلی بات یہ ہے کہ عمل صالح کے بارے میں بات کرتے ہوئے کسی اور صیغے کی بجائے فعل کے صیغے کو استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے ک انسان ایک بار کوئی بھلائی کرلینے پر اکتفا نہ کرے بلکہ وہ اپنی بھاگ ڈور عمل صالح کی آبشار کے حوالے کردے اور اپنی زندگی ہمیشہ اسی انداز سے جاری رکھے۔
اسی مضمون کو آپ کو سورۃ العصر میں بھی ملاحظہ فرما سکتے ہیں کیونکہ اس میں آیا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ اس کے بعد اس خسارے اور گھاٹے سے خلاصی اور نجات کو ایمان اور عمل کے ساتھ ایک ساتھ جوڑا گیا ہے کیونکہ انسان کی ماہیت میں ’’قوۃ شہویہ‘‘ ، ’’قوۃ غضبیہ‘‘ اور ’’قوۃ عقلیہ ‘‘ جیسی کئی قوتوں اور احساسات کا مجموعہ پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے وہ منفی امور کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ چیزیں اسے نقصان اور گھاٹے کی طرف لے جاسکتی ہیں اور ان کے دلدل میں کسی بھی وقت پھنسا سکتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں سورتوں میں علاج کے لیے وہ نسخہ بیان فرمایا ہے جو انسان کو ان مہلک خطروں سے بچانے کے لیے تریاق ثابت ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اگر لوگ تدبر کرتے تو یہ سورت ﴿وَالْعَصْرِ *إِنَّ الإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ * إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (عصر کی قسم، کہ انسان نقصان میں ہے۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق پر چلنے کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے) ان کے لیے کافی ہوجاتی‘‘۔(2)
عاجزی ، فقر، شوق اور شکر
صوفیاء کرام نے بھی ایک مسلمان فرد کی شخصیت کی تشکیل اور ایک نئی فطرت حاصل کرنے کے لیے ’’سیر اور روحانی سلوک‘‘ کا مشورہ دیا ہے لیکن اس کے طریقے اور رستے مختلف ہیں جو ان کے ساتھ خاص ہیں کیونکہ ان حضرات نے ان عوامل کو پیش نظر رکھا ہے جوان کے زمانے میں مسلمانوں پر دباؤ ڈال رہے تھے اور انہوں نے ایسی ترتیب بنائی جو ان حالات کا مقابلہ کرسکتی تھی اور ان کے دو بدو کھڑی ہوسکتی تھی۔ پس بعض حضرات نے اپنی ترتیب کو ’’نفس کے سات مراتب‘‘ سے جوڑا اور بعض نے اپنے نظام کی بنیاد ’’لطائف عشرہ‘‘ پر رکھی۔
ان کے مقابلے میں حضرت بدیع الزمان نے اپنے نظام کو چار بنیادوں یعنی عجز مطلق، فقر مطلق، شوق مطلق اورشکر مطلق سے جوڑا اور دو مزید اصولوں کے بارے میں بتایا جو ان چار اصولوں کی تکمیل کرسکتے ہیں اور وہ ہیں شفقت اور تفکر۔(3) یہ نظام ایک ایسے رستے کی مانند ہے کہ جو بھی شخص حقیقی انسانیت اور کمال کا طلب گار ہو اسے اس پر چلنا چاہیے لیکن ان اصولوں کا اقرار، ان کو قبول کرنے اور سمجھنے کے لیے حقیقی کوشش اور سعی کی ضرورت ہے۔
پہلا اصول: عجز مطلق: اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اپنی خواہش کے مطابق کوئی بھی کام کرنا ناممکن ہے کیونکہ حوادث کا وقوع اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہوتاہے جس میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے۔ اگرچہ اس بارے میں ہم ارادے کے اثر کا انکار نہ بھی کریں تو بھی یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ نتائج کا بھی اسی طرح خالق ہے جس طرح وہ ہر شے کا خالق ہے۔ اس لیے جب معاملہ یہ ہے تو پھر انسان کو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ابدی ارادے اور قدرت کے سمندر کے سامنے ایک قطرہ سمجھتے ہوئے اپنی حالت اور مقام پر راضی ہو کر اپنی بھاگ ڈور اس کے حوالے کردینی چاہیے۔
فقر مطلق: اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اچھی طرح اس حقیقت کو سمجھ جائے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام موجودات اور اشیاء کا حقیقی مالک ہے اورجن چیزوں کے ہم بطور خلیفہ مالک ہیں، وہ بھی اس کی جانب سے ہیں اور اس کی ہیں کیونکہ اس نے ہمیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے اور ہم پر بے شمار اور لاتعداد نعمتیں فرمائی ہیں، ہمیں مسلمان بنایا ہے اور سلطان الانبیاء حضرت محمد ﷺ سے متعارف کروایا اور ہم میں اہلیت نہ ہونے کے باوجود ہمارے لیے اعلیٰ مراتب کے دروازے کھولے، ہمیں اعلیٰ اہداف سے جوڑا اور ان کو اپنا ہدف بنانے اور حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ اس لیے اگر ہم نعمت کا ا نکار کریں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے اوپر ہونے والی نعمتوں کا تذکرہ چھوڑ کر ان چیزوں کے بارے میں بات کریں جو ہماری اپنی طرف سے ہیں تو پھر ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہ ہوگا اور ہمارا ترکش خالی ہوجائے گا ! ایسے میں ہم ہوتے کون ہیں جب ہمارا جسم، ہماری عقل، ہماری حس، ہماری فکر اور ہمارے سارے اعضاء اور ملکیت ، ا للہ کی جانب سے ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا (جیسے کہ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی فرماتے ہیں) کہ ہم حق تعالیٰ کے وجود کے نور کے سائے کے سائے کے سائے کا سایہ ہیں بلکہ اللہ کے حضور ہماری کوئی حیثیت نہیں یہاں تک کہ سمندر اور قطرے کی طرح بھی نہیں۔(4)
تفکر اور شفقت
اگرچہ مذکورہ بالا اصول بہت اہم ہیں مگر وہ صرف پڑھنے یا سطحی طورپر سوچنے سے انسان کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کو انسانی طبیعت کے ایک رخ میں بدلنے کے لیے حقیقی اور سنجیدہ تفکر، ناقل اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔ پس ہم پر لازم ہے کہ ہم انسان، قرآن اور کائنات پر خوب غور و فکر کریں اور ہر وہ کام کریں جو ہمارے بس میں ہے ہیں۔ ہم اپنی گفتگو اور کلام کو بھی ان حقائق کی وضاحت کا ذریعہ بنائیں اور ہمارے پاس جو کچھ ہے اس پر مسلسل غور کریں۔ ہمارے پاس جو راس المال ہے اس کو دیکھیں ا ور اپنی قوت کے وجود پر غور کریں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا شوق اور شکر کے مرتبے تک پہنچنا اسی طرح کے موثر اور چاق و چوبند فکری نظام سے جڑا ہوا ہے اور اسی کا مرہون منت ہے۔
اب آتے ہیں شفقت پر جو ہمارے منہج کا ایک بنیادی اصو ل ہے۔ اس کا مطلب ہے انسانیت پر رحمت اور دوسروں کی نجات کے لیے سنجیدہ کوشش اور قربانی بلکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ اس کا شفقت کا جذبہ صرف انسانیت کے لیے نہ ہو بلکہ اس کو چاہیے کہ وہ یہ جذبہ پوری ہستی کے اوپر پھیلائے اور اس پر نچھاور کرے اور اس موقع سے فائدہ اٹھائے جو اس شعور کو گہرائی اور باریک بینی سے پیش کرنے کے لیے مناسب ہو۔ بلکہ اس کو چاہیے کہ وہ شفقت کے اعلیٰ ترین اور وسیع ترین مفہوم کو اپنائے اور اگر شہد کی ایک مکھی کو مرتا ہوا دیکھے تو بھی اس کی آنکھیں بھیگ جائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی شفقت کی حس آخرت پر قوی ایمان اور تفکر اور تدبر سے جڑی ہوئی ہے اور میرا خیال ہے کہ انبیائے کرام کے ہاں اس طرح کا ہیجان اور خلجان برے انجام کے خوف اور حسن انجام کے شوق سے پیدا ہوتا تھا کیونکہ وہ ایمان رکھتے تھے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں اور جو بغیر کسی حدود و قیود اور قاعدے اور ضابطے کے شتر بے مہار کی طرح زندگی گزارتے ہیں، وہ یقیناًجہنم میں جائیں گے جبکہ آخرت میں اس کے ساتھ ایک جنت بھی ہے جو اپنی پوری رونق، خوبصورتی اور عظمت کے ساتھ نظر آتی اور جھومتی ہے ۔ چنانچہ وہ اس وجہ سے اپنی ساری کوشش اور توانائیاں لوگوں کو اس جہنم سے بچا کر جنت کی طرف لے جانے کے لیے وقف کردیتے تھے۔ چنانچہ ان آیات ﴿لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ﴾(سُورَةُ الشُّعَرَاءِ: 3) (اے پیغمبر شاید تم اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دو گے) اور ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا﴾ (سُورَةُ الْكَهْفِ: 6) (اے پیغمبر اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کر کے اپنے تئیں ہلاک کر دو گے) میں مذکور آنحضرت ﷺ کی حالت اس وسیع غور و فکر کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی جو آپ علیہ السلام کے دل میں تھی۔
جی ہاں، انسان کو بلند درجات تک پہنچنے کے لیے اس طرح محنت اور کوشش کرنی چاہیے جیسے وہ ایک حلزونی جھکڑ کی صورت میں اوپر چڑھ رہا ہے خواہ اس کے لیے وہ حضرت بدیع الزمان نورسی کے وضع کردہ منہج کو استعمال کرے یا دیگر طریقوں اور مناہج کو ۔ پھر جس وقت انسان اپنے موجودہ مقام کا حق ادا کررہا ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ (اسی وقت) اپنی نظر اونچے اور اعلیٰ مقامات پر رکھے اور اس کی لسان حال ہمیشہ اس مسافر کی لسان حال کی طرح ہوجائے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے رستے پر سفر جاری رکھتا ہے اور کبھی بھی اس سے سیر نہیں ہوتا بلکہ ’’ہل من مزید؟‘‘ کہتے ہوئے مزید کی تلاش جاری رکھتا ہے۔ پس اگر موجودہ مقام کے واروات اور نعمتوں سے اچھی طرح مستفید ہوتا ہے تو اس کے دل میں کئی چیزوں کا شوق جاگ اٹھتا ہے۔ اس لیے ایسا مسافر بغیر رکے تسلسل کے ساتھ مختلف دروازے کھٹکٹائے گا۔
استقامت اور جہد مسلسل
جادۂ حق کا ایسا مسافر اپنے وجدان کے ذوق و شوق کے رخ پر سفر کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی ہمت بلند کرنے کے لیے کوشش کرے گا اور جوں جوں ہمت میں بلندی آئے گی اسے مزید حرکت کا موقع ملے گا۔ اس طرح وہ ایک اچھے دائرے میں داخل ہوجائے گا اور اس کے دل میں ہمیشہ نئے نئے شوق پیدا ہوں گے جن کے ذریعے وہ نئے مراتب اور مقامات کی امید رکھے گا۔ مطلب یہ ہے کہ انسان روز مرہ کی شرط کے طورپر سعی اور کوشش کرتا ہے تو مشیئت الٰہی جو بنیادی شرط ہے، اس کی مدد گار ہوتی ہے ا ور اسے اس کے مطلوبہ مراتب تک پہنچاتی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام امور کو سمجھنا اور ان کو انسانی طبیعت اور مزاج کا ایک رخ بنانا، اچانک نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بات حقیقی اور سنجیدہ محنت اور کوشش سے جڑی ہوئی ہے لیکن بعض مخصوص حالات میں خرق عادت امور بھی پیش آسکتے ہیں جن کی وجہ سے وہ سرعت کے ساتھ انسانی کمالات کی چوٹی تک پہنچ سکتے ہیں ۔ مثال کے طورپر بعض حضرات ایسے بھی ہیں جن کو نبی کریم ﷺکی صحبت اور مجلس میں بیٹھنے کا کوئی زیادہ موقع نہیں مل سکا لیکن اس کے باوجود وہ صحابہ کرام کے مرتبے تک جا پہنچے کیونکہ آپ علیہ السلام کی مجلس کا ماحول مخاطبین کو اس انداز میں رنگ دیتا تھا اور ان کے دلوں پر اثر کرتا تھا کیونکہ آپ ﷺ اپنے حال سے، اپنے برتاؤ سے ، اٹھنے بیٹھنے سے، بولنے چالنے سے اور اپنے چہرہ انور کی سرور اور اپنے خدو خال کی خوشیوں سے اللہ تعالیٰ کو یاد فرمایا کرتے تھے اور آپ علیہ السلام اپنے تمام احوال سے اپنے گرد بیٹھے لوگوں کو یہ احساس دلاتے تھے کہ آپ علیہ السلام ، اللہ کے حضور کھڑے ہیں۔
یہی معاملہ ان بعض اولیاء کرام کا بھی ہے جو آپ علیہ السلام کے بعد تشریف لائے کیونکہ (بعض اوقات ایک ہی سانس میں) وہ اپنے ماحول میں آنے والوں کو انسان کامل کے مرتبے تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس عمودی ارتقاء کے بار ے میں آپ بہت سے اعلیٰ صلاحیتوں والے حضرات کی مثال پیش کرسکتے ہیں جیسے طاہر موتلو، حسن فیضی، حافظ علی اور خلوصی آفندی وغیرہ حضرات جو حضرت بدیع الزمان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے تھے۔
البتہ یہ امور نادر الوقوع ہیں، ہمیشہ اور تسلسل کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ اللہ کا کرم ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام کے ہاں معجزے اور اولیائے عظام کے ہاں کرامت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جبکہ اس مسئلے کی موضوعی شکل یعنی وہ صورت جس کی طرف ہر وقت رجوع کیا جاسکتا ہو، وہ یہ ہے کہ تمام اوامر اور نواہی کو بجا لانے میں ارادے کو درست انداز سے استعمال میں لایا جائے۔
اگر ہم اپنے مخصوص اقدار کو اپنی فطرت کا جزو بنانا چاہتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ ہم اصل مصادر اور سرچشموں کے ساتھ مشغول رہنے کی کوشش کریں اور چلتے پھرتے اوراٹھتے بیٹھے حق تعالیٰ شانہ کا تذکرہ کریں اور اپنی ساری گفتگو اور مجالس اسی لیے وقف کریں۔
اسی طرح ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی بندے کی اس وقت تک مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کی خاطر حقیقی سعی اور کوشش کرتا رہتا ہے:
’’اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو، توکیا وہ تم سے محبت نہیں کرے گا؟
اگر تم حق کی خوشنودی طلب کرو، تو تمہارا خیال ہے کہ وہ تمہیں خالی ہاتھ لوٹا دے گا؟
اگر تم حق تعالیٰ کے در پر اپنی روح کو قربان کردو اورتم اس کے فرمانبردار ہو، تو کیا وہ تمہارے ثواب اور اجر میں کمی کرے گا؟‘‘
اگرتم اللہ کی جانب متوجہ ہو تو وہ تمہاری طرف متوجہ ہوگا ، اگر تم اپنی نظر اور آنکھیں اس کی طرف لگاؤ گے تو وہ بھی تمہاری طرف التفات کرے گا اور اگر تم اپنے دل اس کے لیے کھول دو گے تو وہ ان کو کبھی بھی خالی خولی نہیں چھوڑے گا۔
آخر میں کہوں گا کہ اگر انسان اسلام کے نفاذ کو اپنی فطرت اورمزاج بنا لینے میں کامیاب ہوجائے اور اپنے ذمہ عائد عبادات اور فرائض کو ادا کرنے میں زیادہ نہ تھکے، مثلاً نیند سے اٹھنا اور تہجد کے لئے رات کو جاگنا لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے مگر جو انسان اس کام کو اپنے مزاج کا حصہ بنا لے اور ایسا ہوجائے کہ گویا اللہ تعالیٰ سے اس نے خفیہ معاہدہ کرلیا ہے، تو وہ بستر سے اٹھنے سے تنگ اور پریشان نہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ شروع میں اسے نیند کی وجہ سے سستی محسوس ہوگی مگر جب وہ نماز میں مصروف ہوگا اور دعا کرے گا اور اللہ کے حضور گڑگڑاے گا تو وہ دل کی گہرائیوں سے کہہ اٹھے گا: ’’کتنی اچھی بات ہے کہ میں اٹھ گیا اور وحشتناک رات کی ان ساعتوں کو کارآمد بنا لیا اور ان کو اپنے رب کی مناجات سے سجا لیا!‘‘۔
1۔ صحیح البخاری، الایمان:1، مسند الامام احمد:309/21
2۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم:3/1
3۔ بدیع الزمان سعید نورسی، المکتوبات، چوتھا مکتوب، ص: 24، الکلمات، چھبیسواں کلمہ، ذیل: ص:555
4۔ بدیع الزمان سعید نورسی، المکتوبات، پندرھواں مکتوب ،چھٹا سوال، ص:77-76
- Created on .