مخاطبین کے حال سے واقفیت: دلوں کی جادوئی چابی

مخاطبین کے حال سے واقفیت: دلوں کی جادوئی چابی

سوال: اعلیٰ ہدف کی خاطر ساری دنیا میں ہجرت کرنے والے لوگ محبت اور گفتگو کی سوچ کے ساتھ مختلف اور متنوع ثقافتوں سے ملتے ہیں۔ اس بارے میں ان کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟

جواب: جن لوگوں نے اپنے آپ کو انسانیت کی خوشی اور سلامتی کے لیے وقف کردیا ہے اور اس بارے میں اچھی کوششیں کررہے ہیں، ان کو چاہیے کہ اپنے مخاطبین تک اپنے احساسات اور افکار سادگی اور آسانی سے پہنچانے کے لیے سب سے پہلے ان جگہوں کا اچھی طرح مطالعہ کریں جہاں ان کو جانا ہے اور ان علاقوں کے لوگوں اور ان کے ثقافتی ماحول کو اچھی طرح سمجھ لیں۔۔۔ یہ ایک نہایت اہم کام ہے جو اپنی پاکیزگی میں اس سوچ کے برابر ہے جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ اعلیٰ مقصد والا شخص اپنی روح سے تعلق رکھنے والے پیغام کو اپنے ارد گرد کے لوگوں تک اسی قدر آسانی سے پہنچا سکے گا جس قدر وہ ان کے ماحول سے واقف ہوگا۔

افسوس کی بات ہے کہ اس زمانے میں بعض لوگ اپنے اسلوب کی غلطی کی وجہ سے کچھ لغزشوں، غلطیوں اور منفی رد عمل کا شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ قرآن کریم، سنت مطہرہ اور نبوی دعوت کے سب سے بڑے وارث کی اقتدا کررہے ہیں۔ اس طرح وہ اسلام مخالف محاذ بنانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ پس جس طرح سب سے اچھا کھاناپیش کرتے وقت اسلوب کی غلطی کی وجہ سے انسان کو متلی آسکتی ہے، یہی مسئلہ یہاں بھی ہے ۔ جی ہاں، وحی اور دین سے متعلق حقائق کے برائی اور قباحت کی مختلف قسموں سے پاک ہونے میں کوئی شک نہیں اور یہ بات قطعاً نہیں ہوسکتی کہ ان میں کوئی ایسی چیز ہو جو متلی یا تنگی کا سبب بن سکتی ہو بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ہر قرآنی دستور یقیناًاللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور اس میں گمراہی یا لوگوں کے ذہنوں میں شک پیدا کرنے والی کوئی چیز نہیں۔ یہی معاملہ سید الانبیاء ﷺ کے کلام کے بارے میں بھی ہے جو قرآنی اصولوں کی شرح اور بیان ہے۔ اسی طرح سلف صالحین نے ان کی اتباع میں جو سلوک اور برتاؤ ظاہر کیا وہ بھی نہایت عظیم اور کامل ہے لیکن اگر معامالات کو چلانے والے کو ان مخاطبین کے حالات کا علم نہ ہو جن کے سامنے یہ اصول پیش کئے جارہے ہیں اور خود اپنے آپ کو ان کی جگہ رکھ کر ان کے احساسات اور جذبات کو نہ سمجھتا ہو تو ہر جانب سے مکمل ان اصولوں کو پیش کرنے سے بھی بعض اوقات شدید رد عمل پیدا ہوسکتا ہے۔

جی ہاں، قرآنی حقائق کی صحت ایک مسلمہ امر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ کا پیغام ہے جو آسمان سے ا ترا ہے لیکن اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ مخاطبین کا ماحول ، ان کے حالات اور طور طریقے بھی ان آسمانی حقائق کو قبول کرنے اوران کو سمجھنے کے لیے مناسب ہیں یا نہیں؟ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ’’دوا بیماری کے بقدر ہوتی ہے‘‘ جیسے کہ حضرت بدیع الزمان فرماتے ہیں کہ: ’’تم جو بھی کہو اس میں حق کہنا ضروری ہے لیکن ہر حق بات کو نشر کرنا تمہارے اوپر لازم نہیں۔ اسی طرح تم جو بھی کہتے ہو اس میں سچ کہنا ضروری ہے لیکن ہر سچ کہنا درست نہیں‘‘۔ (1) ہوسکتا ہے کہ اس نئے علاقے کے لوگ عظیم اور اعلیٰ حقائق (جو دین کی نمائندگی کرتے ہیں) کو اپنے اس ماحول اور ثقافت سے جوڑ کر ان کو غلط سمجھیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ہر حقیقت کو اپنے سر پر برسنے والا ہتھوڑا سمجھ بیٹھیں۔

حقیقت یہ ہے کہ خودہمارے اپنے لوگوں کا یہ حال ہوگیا ہے۔ اس کا تعلق صرف ان ممالک سے نہیں جہاں یہ لوگ جاتے ہیں۔ مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ جو لوگ ایک معقول کام کے گرد اکٹھے ہوجاتے ہیں تو خود ان کے اہل وطن بھی ان کو اچھی طرح جانتے ہیں جبکہ وہ لوگ تو ان کے علاوہ ہیں جو ان کو نہیں جاننا چاہتے یا ان کے حالات جاننے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ یہ لوگ بالکل نہیں دیکھتے بلکہ ان لوگوں سے دوری کی وجہ سے وہ ’’بصیرت کے فقدان‘‘ کی زندگی بسر کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ جو لوگ ان کے ہمراہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں، ان کے ہمراہ ایک ہی جگہ سجدہ کرتے ہیں، وہ بھی ان کو اچھی طرح نہیں جانتے۔ اس لیے بعض اوقات آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے خیر اور بھلائی کے ان کاموں کو دیکھا ہی نہیں جو ہو چکے ہیں، ان کاموں کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ انہوں نے نہیں پڑھا ، ان کے بارے میں جو قصے مشہور ہیں ان کو نہیں سنا اور ان کاموں کے پس منظر کا بھی تجزیہ نہیں کیا کہ اس کے ذریعے کسی نتیجے تک پہنچ سکیں۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ ہمارے اہل وطن اس وقت ان اچھے اور نفع بخش کاموں کے بارے میں ضرور جان لیں گے جو ساری دنیا میں لوگوں کا موضوع گفتگو ہیں اور مختلف قوموں اور ملکوں کو یکجا کررہے ہیں۔ پھر جس وقت یہ سارے کام ہو رہے ہیں، لوگوں کو ایذا اور تکلیف دینے اور ان کو ڈرانے یا دور کرنے اور ’’اجتماعی انانیت‘‘ سے بھی بچنے کی شدید ضرورت ہے کہ آدمی یوں نہ کہے:’’ ہماری خدمات، ہماری تحریک اور ہماری سرگرمیاں۔‘‘ اسی طرح مشترک نقاط تک پہنچے اور ان پر عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے جس طرح مسجد کی جانب جاتے ہوئے سب کے جذبات اور افکار ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح مشترکہ جمالیات کا تبادلہ ضروری ہے کیونکہ لوگ فہم اور سوچ کے مختلف مرتبوں پر ہونے کے باوجود مسجد کی طرف انتہائی خوشی کے جذبے سے جاتے ہیں، امام کے پیچھے صف آرا ہوتے ہیں اور بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی کا اظہارکرتے ہیں۔

انسان کوسمجھنے کے لیے بعض ضروری معیار

کوئی سائل ’’مخاطب کو جاننے اور اسے سمجھےh کے معیار‘‘ کے بارے میں سوال کرسکتا ہے کہ اس کا پیمانہ کیا ہے کیونکہ اس اہم مسئلہ کا دلوں کو حق اور حقیقت کے ساتھ یکجا کرنے میں بڑا ا ہم کردار ہے۔ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ انسان کو جاننے اور سمجھےی کے بارے میں ہے ایک خاص اوراہم نقطہ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ (وہ واقعہ یہ ہے):

ایک شخص نے حضرت عمر رضی الہ عنہ کے سامنے گواہی دی تو انہوں نے اس سے فرمایا: ’’میں تجھے نہیں جانتا اور میرے نہ جاننے سے تجھ سے کوئی نقصان نہیں۔ کوئی ایسا آدمی لے آؤ جو تمہیں جانتا ہو۔

ایک شخص نے کہا: امیر المومنین میں اس کو جانتا ہوں۔

۔ آپ نے سوال کیا: کس چیز سے جانتے ہو؟

۔ ’’عدالت اور فضلیت کے ساتھ۔

۔ کیا وہ آپ کا قریب ترین پڑوسی ہے جس کے دن اور رات اور اس کے آنے جانے کو جانتے ہو؟

۔ نہیں۔

۔ کیا وہ درہم و دینار سے تجھ سے کوئی معاملات کرتا ہے ، جس سے اس کے تقوے کا علم ہوسکے؟

۔ کیا وہ سفر میں تمہارا ساتھی رہا ہے ؟ جس سے اس کے اعلیٰ اخلاق پر دلیل پیش کی جاسکے؟

۔نہیں۔

۔ حضرت عمر نے فرمایا: اس کا مطلب ہے تم اسے نہیں جانتے اور ساتھ ہی اس آدمی کو حکم دیا کہ ’’کوئی ایسا آدمی میرے پاس لاؤ جو تمہیں جانتا ہو‘‘۔(2)

جیسے کہ اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی انسان جب کسی انسان کو جاننے کا اقرار کرے تو اس کے بارے میں کچھ امور اس کو معلوم ہوں۔ مثلاً

اول: یہ معلوم ہو کہ وہ شخص دن کو کیا کرتا ہے، رات کیسے گزارتا ہے، کیا وہ روز اپنے دن کے اعمال پر کڑھتا ہےیا نہیں؟ جہاں تک ممکن ہو سکے معلوم کیا جائے کہ کیا وہ دن میں ایسے منفی کاموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ہزار بار استغفار کرتا اور گڑگڑاتا ہے جو درحقیقت منفی نہیں بلکہ اس کو ایسے لگتے ہیں۔

دوم: اس شخص کے ساتھ سفر کرنا چاہیے اور سفر کی مشقتیں ایک ساتھ برداشت کرنی چاہیںد۔ انہی میں سے اعلیٰ مقصد کے لیے دنیا کے مختلف مقامات کا سفر بھی ہے، حج کے سفر کی مشقتیں بھی اسی ضمن میں آتی ہیں کیونکہ ایسے سفر میں لوگوں کی سوچ، ان کے برتاؤ اور ان کے صبر یا بے صبری اور غصے پر قابو اور ان کی ترش روئی اور مختلف قسم کے دباؤ میں آنے یا اپنی ثابت قدمی اور طاقت کو برقرار رکھنے جیسی صفات کا علم ہوتا ہے ورنہ اس طرح کی مشکلات اور مشقتوں کو ایک ساتھ برداشت کرنے کے بغیر ان لوگوں کو اچھی طرح پہچاننے کا اقرار کرنا مشکل ہے۔

سوم: تجارتی اور خریدوفروخت کے معاملات حق کو ثابت کرنے کے بارے میں لوگوں کے مثبت اور منفی افکار اور آراء کو ظاہر کرتے ہیں اور اس بات کو پیش نظر رکھنے کے بارے میں ان کی حساسیت اور باریک بینی کو بھی واضح کرتے ہیں۔ اس لیے جب تک ہم لوگوں کے ساتھ اس معنی میں تجارت نہ کریں ان کی حساسیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور اسی کا مطلب ہے کہ ہم ان کوکافی انداز سے نہیں جا ن سکے۔

کسی انسان کو پہچاننے کے لیے مذکورہ بالا امور کے علاوہ ہم جیلوں جیسے بند مقامات پر ایک ساتھ رہنے اور زندگی کے غم بانٹنے کو بھی اس میں شامل کرسکتے ہیں کیونکہ جیل کا ماحول جہاں یہ بات نہایت وضاحت کے ساتھ ظاہر ہوجاتی ہے کہ لوگ زندگی کے معمولی ترین مسائل پر بھی ایک دوسرے سے کس طرح گفتگو کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح سب سے حلیم اور عقلمند شخص بھی اس دباؤ اور اثر کا شکار ہوجاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں دوسروں کے تصرفات سے شل ہو کر رہ گیا ہے۔ جن لوگوں نے اس ماحول کا تجربہ کیا ہے وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

اگر مذکورہ بالا معیار موجود نہ ہو تو لوگوں کو پہچا ننے کا دعویٰ (کم سے کم) ایک طرح کا خلاف واقعہ بیان ہے کیونکہ لوگوں کو جاننے اور ان کے بارے میں کوئی حکم ان قواعد اور اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے جو اوپر مذکور ہوئے صرف الفاظ سے نہیں کیونکہ اس قسم کے اصولوں کی رعایت رکھنے سے ایسے لوگوں سے معاملات کرنے کا تجربہ حاصل ہوتا ہے کہ کون سی بات ان کو غصہ دلاتی ہے، کس بات سے ان میں تحفظات اور خدشات پیدا ہوتے ہیں اور ان کے جذبات کو کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے اور کون سی باتیں ان کو اچھی لگتی ہیں ورنہ ایسا ہوسکتا ہے کہ خدائی دستر خوان لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے بھی بغیر سبب اورسمجھ کے لوگ بغض رکھ سکتے ہیں اور نعوذ باللہ ان اعلیٰ اقدار سے نفرت کرسکتے ہیں۔

انتہائی کوشش کرنے کے باوجود تغل میں تدریج

دینی اصولوں کو زندگی کی روح بنانے کے لیے ایسی کوشش اور فدائی قربانی کی ضرورت ہے جیسی کوشش آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم ﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ﴾ (الحجر:94)(جو حکم تم کو ملا ہے وہ لوگوں کو بے دھڑک سنا دو) کی تعمیل کرتے ہوئے رات دن کی البتہ ان حقائق کو دوسروں کے سامنے رکھنے کے لیے اسی طرح تدریج ہونی چاہیے جس طرح قرآن کریم کا نزول ہوا ہے۔ اس لیے اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ کیا کیا جائے اور کس طرح کیا جائے؟ کہاں کیا جائے؟ ا ور کتنا کیا جائے؟ اور کیسے کیا جائے؟

یہ ساری باتیں ایسے واضح اصولوں کے مطابق ہونی چاہیںج جن کا محور غور و فکر، تدبر اور دائمی خیر خواہی ہو اور ان کے مطابق آگے بڑھنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں دوبارہ اس بات کا تذکرہ کروں گا کہ ماحول اور مخاطبین کو سمجھاح اس پیغام کی پاکیزگی کے برابرہے جو ان تک پہنچایا جارہا ہے کیونکہ جس قدر ہم ان کو پہچانیں گے اسی قدر آسانی سے اپنے روحانی الہام ان تک پہنچا سکیں گے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو جائے تو ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے لوگوں کو نفسانتی تکلیف دی جاسکتی ہے اور ان میں آسمانی حقائق اور اعلیٰ اقدار کے خلاف دشمنی اور بضم کے جذبات بھڑکائے جاسکتے ہیں۔

اس لئے یہ غلطی کتنی بڑی ہے کہ لوگوں کے دل میں ا للہ اور رسول کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کے وقت اسلوب کا خیال نہ رکھنے اور احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے وہ اللہ اور رسول کے دشمن بن جائیں! اور یہ بات کس قدر غمناک اور دردناک ہے کہ دین و ایمان سے نئی نئی قربت پیدا کرنے والوں کے ذہن میں شر وع سے ہی جہنم اور عذاب کا تذکرہ کرکے نہ بھرنے والے گھاؤ لگائے جائیں جس کی وجہ سے وہ دین اور دینداری سے ایسے متنفر اور دور ہو جائیں کہ ان کے دلوں کو دوبارہ راضی کرنا مشکل ہوجائے!

یا اللہ ہمیں اس تکلیف کی وجہ سے نہ پکڑ جو ہم نے ان کو دی ہے اور تیرے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنے غلط اسلوب کی وجہ سے ان کے دل میں تجھ سے اور حق اور حقائق سے نفرت دلانے کا سبب بنے ہیں۔ یا اللہ ہمیں معاف فرما دے۔ ہماری بخشش فرما۔

(1) بديع الزمان سعيد نورسي: المكتوبات، بائیسواں مكتوب ، چوتھی وجہ، دوسرا دستور، ص 323.
(2) البيهقي: معرفة الآثار والسنن، 237/14؛ السنن الصغرى: 4/ 134.