ماوراء الطبیعیاتی عالم کی قمریاں اور آنے والی تجدید
سوال: وہ کونسے امور ہیں جن کا تعلق انسان کے روحانی اور ماوراء الطبیعیاتی عالم کے سامنے کھلنے سے ہے؟
جواب: بعض لوگ مادے کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ روحانی اور ماوراء الطبیعیاتی امور سے دور رہ کر زندگی گزارتے ہیں۔ اس سوچ میں ان کی فطرت کا واضح اثر ہوسکتا ہے مگر انہوں نے اپنے ارادے کا حق ادا کیا اور نہ اس میدان میں کوئی حقیقی جدوجہد کی۔ ان لوگوں کی عقلیں ان کی آنکھوں میں اتر آئی ہیں جس کی وجہ سے وہ صرف ان چیزوں کے بارے میں ہی سوچ سکتے ہیں جو ان کو نظر آتی ہیں اوروہ کانوں تک مادیت میں ڈوب چکے ہیں، اگرچہ اپنے رب پر ایمان کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے آپ کو خود اپنے تنگ افکار اور سوچ کے چوکھٹے میں بند کرلیا ہے۔ مثلاً وہ ان کرامات پر ایمان نہیں رکھتے جن میں سے ہزاروں کو ہم شمار کرسکتے ہیں اور فی زمانہ ایسے ثقہ لوگوں کے ذریعے تواتر کے ساتھ پہنچی ہیں جن کا جھوٹ پر متفق ہونا ناممکن ہے بلکہ بعض مادہ پرست تو معجزات کا بھی اقرار نہیں کرتے اگرچہ وہ تواتر اور روایات کے صحیح ہونے کی وجہ سے ان کو قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ چنانچہ وہ مادی اسباب کے ذریعے ان کی تشریح کرتے ہیں اور ان کو اپنی تاویلات کا تابع بناتے ہیں۔
ان لوگوں نے اپنی سوچ کی دنیا کو مادی امور میں مقیدکردیا ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ا شیاء اور واقعات کے ماوراء الطبیعیاتی رخ کو سمجھنے کی قدرت اور صلاحیتیوں کو کمزور کردیا۔ اسی وجہ سے وہ ان واقعات کی حکمتوں کو نہ سمجھ سکے جو بظاہر شر اور برائی لگتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ ’’ تاویل الاحادیث‘‘ (خوابوں کی تعبیر) کا علم حاصل نہ کرسکے اس لیے وہ ان واقعات کے پیش آنے میں پوشیدہ مختلف معانی کا ادراک کرنے سے عاجز رہے۔
واقعات کا پس منظر اور ان کی حکمت
اگر ہم واقعات کے ظاہر ہونے کی کیفیت پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ ہر شخص کے لیے مختلف معانی کے اظہار کے لیے کھلی نشانیاں ہیں لیکن جب انسان کے ادراک کا ارادہ کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی نگاہ سے دیکھے اور محسوس کرے اور ان کا تجزیہ کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ بالفاظ دیگر: اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تکوینی اوامر کو بھی شرعی اوامر کی طرح اس طرح پڑھے کہ گویا وہ ایک کتاب ہیں اور واقعات پر جامع نظر ڈالے اور ان کے درمیان تعلق کا ادراک کرنے کی کوشش کرے اور سبب اور نتیجہ کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرے اور ’’اتفاق‘‘ کے نظریے کو یکسر مسترد کردے۔ ترکی شاعر رجائی زادہ محمود اکرم نے کیا خوب کہا ہے:
ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم کتاب ہے
اگر اس کے کسی بھی حرف پر غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ اس کا معنی ’’اللہ ‘‘ ہے
فرض کیا کہ بعض واقعات اتفاق سے وقوع پذیر ہوتے ہیں یا ان کے واقع ہونے کا احتمال سو میں ایک ہے۔ پس جب اس سے متعلق بعض رکاوٹوں اور دیگر واقعات کو بھی اس کے ساتھ ملائیں گے تو یہ امکان کم ہو کر ہز ار میں سے ایک رہ جائے گا یا دس لاکھ میں ایک یا ایک کھرب میں ایک۔ اس لیے اگر انسان اپنی زندگی پر نظر دوڑائے اور اپنے دل ، آنکھوں، ہاتھوں، حواس یا احساسات میں آنے والی تمام چیزوں پر جامع انداز سے غور کرے ، تو وہ ان واقعات اور ان کے درمیان تعلق سے بہت سے گہرے مفاہیم مستنبط کرسکتا ہے اور وہ ہر واقعہ کے ساتھ ایک بار پھر یقین کی آنکھ سے دیکھ لے گا کہ کائنات میں ایک ذرے کے برابر بھی اتفاق کی گنجائش نہیں لیکن اگر وہ ان واقعات کو بعض فلاسفہ کی طرح مستقل انداز میں لے گا تو پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان کے اس مفہوم اور مضمون کا ادراک نہیں کرسکے گا جو اس کائنات کے ہر حرف میں پوشیدہ ہے۔
اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر انسان روحانی دنیا کی سیر کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ کائنات اور اس میں جاری واقعات پر گہری نگاہ ڈالے اور اس بات کا یقین رکھے کہ کائنات میں کوئی شے بے معنی نہیں۔ مثلاًاگر اس کے ہاتھ سے پیالہ گر کر ٹوٹ جائے تو اسے ’’تاویل الاحادیث‘‘ کے علم کے مطابق ہی مانا جانا چاہیے کہ یقیناًاس کا بھی ایک مطلب ہے اور پھر اس پر اتنا غور و فکر کرے کہ اس کے مطلب اور پیغام دونوں کو سمجھ جائے لیکن میری بات کو اس کے سیاق و سباق سے دور نہ لے جائیں۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ہم واقعات کو نیک شگونی اور بدشگونی یا ان سے پیدا ہونے والی امید اور نامیدی کے تابع کریں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس بات کا ادراک کریں کہ ہر واقعےکا ایک خاص مطلب ہوتا ہے جس کا اظہار وہ اپنی لسان حال سے کرتا ہے۔
دعا: ماوراء الطبیعیاتی عالم کی مخفی کنجی
ہم صبح و شام پابندی کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ ’’اے اللہ ہمیں آگ سے بچا لے اور نیک لوگوں کے ہمراہ جنت میں داخل فرما‘‘ جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جہنم سے نجات اور جنت کا حصول ان اہم اہداف میں سے ہے جو حقیقت میں ایک مسلمان تلاش کرتا ہے لیکن زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کا سوال کرے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی یقینی معرفت اورکبھی بھی اس سے غافل نہ ہونا۔
جی ہاں، یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جو انسان کو سمجھنا چاہیے اوردعا میں اس پر زور دیاجانا چاہیے۔ اسے چاہیے کہ جب وہ اپنے رب کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ بلند کرے تو سب سے پہلے اللہ کی معرفت اور خوشنودی طلب کرے اور طلب میں اس قدر اصرارکرے کہ اسے یوں محسوس ہو کہ اس کے رب کی طرف سے آنے والے لطائف کی وجہ سے اس کے ہاتھوں میں جھرجھری ہورہی ہے اور وہ سن ہورہے ہیں۔ گویا وہ لطائف موسلادھا بارش کی طرح اس پر برس رہے ہیں۔ پس اگر انسان کے اندر اس کے سر کی چوٹی سے پاؤں کی انگلیوں تک ایسا روحانی زور پیدا ہوجائے تو پھر اس کو یوں دعا مانگنی چاہیے کہ جیسے اس کا دل اپنی جگہ چھوڑ گیا ہے اور اس کا سر پھٹ گیا ہے اور یوں کہے’’اے اللہ میرے ایمان میں، معرفت میں اور اپنی محبت میں اضافہ فرما اور اپنے شوق میں مجھے دیوانہ کردے، میرے دل میں اپنا عشق بھر دے اور مجھے اپنے رستے میں مجنون بنا دے!‘‘
تجربہ کریں کہ اللہ تعالیٰ سے سچے اور سلیم دل سے ہزار بار دعا کرو خصوصاً رات کے اندھیرے میں اور یہ بات بھی آپ کے علم میں رہنی چاہیے کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو فطرت کے پردوں کو چا ک کرکے تمہارے لیے ان کے پیچھے مزید رستے کھولتی ہے۔ اس کے حکم اور عنایت سے آپ ماوراء الطبیعیاتی عوالم پر مطلع ہوں گے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جو طلب اور کوشش کرے وہ پالیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی کام کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور اسے سنجیدگی سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تمنا برلاتا ہے۔ کیا کوئی ایسا شخص ہے جو ایسے بھکاری کی طرف متوجہ ہوجس نے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ رکھے ہوں اور لوگوں سے بے پروا ہو خواہ اسے کچھ دیں یا نہ دیں؟! اسی طرح دعا کی قبولیت بھی انسان کی اللہ تعالیٰ کی جانب مکمل توجہ، اس کے در پر سجدہ ریزی، اس کا در کھٹکٹانے پر اصرار اور دعا کی قبولیت کے یقین ، کے مرہون منت ہے۔
اس کے باوجود (نہایت غم کے ساتھ) میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ مسلمانوں کے لیے دعا کی اس قدر شدید اہمیت کے باوجود، افسوس کی بات ہے کہ آج اس عبادت کا اہتمام سب سے کم ہے کیونکہ یہ ایک زمانے سے ظاہری شکل و صورت کا شکار ہوگئی ہے یہاں تک کہ مساجد میں مانگی اور بار بار دہرائی جانے والی دعائیں بھی عادت اور غفلت کے جال میں پھنس چکی ہیں۔
میرے ان الفاظ کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جانا چاہیے بھری مساجد میں ادا کی جانے والی مسلمانوں کی عبادات اور دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ حاشا و کلا! ایسا ہر گز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ مومن کو اس کے معمولی ترین اور نہایت چھوٹے عمل پر بھی اجر دیتا ہے اور اگر وہ ذرے کے برابر ہو تو بھی وں کی تعبیراس کا ثواب دیتا ہے مگر یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ انسان کی قدر و قیمت اور مرتبہ اپنی قیمت کے اہتمام کے بقدر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ دنیا کی کسی شے کی قدر کرتے ہیں خواہ وہ کوئی محل ہو یا کوئی اعلیٰ قسم کا بنگلہ یا اس طرح کی کوئی اور چیز، تو تم نے اپنی قیمت کم کرکے اس کے برابر کردی اور اگر تم جنت کی قدر کرو اور اس کا اہتمام کرنے لگو تو قیمت میں اس کے برابر ہوجاؤ گے لیکن اگر تم اپنی خواہشات اور بندگی کو اللہ تعالیٰ سے عشق اور اس سے ملاقات کے شوق کے ساتھ جوڑ دو گے تو تم ایسے مرتبے تک پہنچ جاؤ گے جس کی کوئی حد اور انتہاء نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہنے والاہے اور اس کی کوئی انتہاء نہیں۔ اگر تم تہلیل، تسبیح اور تحمید کے ذریعے اس کی بڑائی اور بزرگی بیان کرو اور یوں کہو: ’’ اے اللہ کائنات کے ذروں کی تعداد کے برابر تیری حمد و ثنا کرتے ہیں۔‘‘ اور اپنے وجدان اور دل میں اس کا احساس کرو اور جب بھی اس کا ذکر کرو تو تمہارے دل دھڑکنے لگیں، تو یہ حالت اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے مرتبے اور قدر و قیمت کا پتہ دیتی ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ’’ مَنْ كَانَ يُحِبُّ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَتَهُ عِنْدَ اللَّهِ فَلْيَنْظُرْ كَيفَ مَنْزِلَةُ اللَّهِ عِنْدَهُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنْزِلُ الْعَبْدَ مِنْهُ حَيْثُ أَنْزَلَهُ مِنْ نَفْسِهِ ‘‘(1) (جو شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنا مرتبہ معلوم کرنا چاہے تو وہ یہ دیکھے کہ اس کے ہاں اللہ تعالیٰ کا کیا مرتبہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے کی اتنی ہی قدر کرتا ہے جتنا بندے کے ہاں اس کا مرتبہ ہوتا ہے)۔ اس لیے تم پرٍ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتنی قدر کرو جتنا اس کا حق ہے، ہمیشہ اس کے بارے میں سوچو، اپنے تمام معاملات میں اس کا خیال رکھو، ہمیشہ اس کے نام کا ذکر کرو اور اس سے اپنے تعلق کو برقرار رکھو۔
ماوراء الطبیعیاتی عوالم کے آگے نہ کھلن
کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو محض اپنے فضل و کرم سے طرح طرح کی نعمتوں سے نواز دیتا ہے جس سے اس بندے کی کو شش اور جد وجہد میں اضافہ کر دیتا ہے لیکن اس کا موضوعی پیمانہ اور بنیاد یہ ہے انسان اپنے ارادے کا حق اداکرے کیونکہ فرمان ربانی ہے: ﴿وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلاَّ مَا سَعَى﴾ (النجم:53) (اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے) یعنی انسان کو اس کی سعی اور اس کے ارادے کے حق کی ادائیگی اور اللہ کے رستے پر چلنے کے ثواب کے علاوہ کوئی شے نہیں ملتی۔کے ارادے کے حق کی ادائیگی اور اللہ کے رستے پر چلنے کے
اس رخ سے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ: میں ماوراء الطبیعیاتی عالم کے سامنے کھل سکتا ہوں نہ اشیاء اور واقعات پر جامع نظر ڈال سکتا ہوں نہ ان کو آپس میں جوڑ سکتا ہوں اور نہ ہی ایسی ترکیب تک پہنچ سکتا ہوں جو ان کو آپس میں جوڑے۔ تو سب سے پہلے اسے اپنے اوپر غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھے کہ کیا اس نے اپنے اوپر لازم کام کرلیے ہیں یا نہیں؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسے انسان نے فرائض کی ادائیگی کا پورا پورا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ بغیر کسی سستی اور اکتاہٹ کے تہجد کے لیے مسلسل چالیس راتیں اٹھ کر اوراللہ کے حضور سجدے میں گر کر، گڑگڑا کر اس سے وہ چیز مانگنی ہوگی جو مانگنی چاہیے؟ بے شک جو شخص یہ کام نہیں کرتا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ روحانی امور کا وہ اہتمام نہیں کرتا جوہونا چاہیے۔ اس لیے اس سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اس کا روحانی افق بھی مطلوبہ سطح پر ہوگا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن کے دروازے روحانی امور کے سامنے بند ہوتے ہیں لیکن یہ حالت ان پر اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں فرمائی بلکہ اس کے برعکس انہوں نے خود اپنے آپ کو بند کرلیا اور ماوراء الطبیعیاتی عوالم کے سامنے کھلنے کے لیے ضروری شرائط پوری نہ کرنے اور اپنے ارادے کا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس سے لطف اندوز نہ ہوسکے۔
یہاں ایک اور بات بھی ہے جس کے بارے میں میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اگرچہ وہ سوال میں مذکور ہیں ہے۔ وہ یہ کہ تجدید کے اس مرحلے کا تسلسل )جو ان دنوں ساری انسانیت کے اندر امید اور خیرپھیلا رہا ہے) اس کو ثابت قدمی اورمیدان میں اس کی استقامت، اس اہل انسان کے ہاتھوں ہو گی جو ایک طرف سائنسی اور شرعی علوم کا حامل ہے تو دوسری طرف روحانی امور اور ماوراء الطبیعیاتی عالم کے سامنے بھی کھلا ہوا ہے۔ جی ہاں، اگر ہم نے ایسے ’’ارادے والی نسل‘‘ تیار کرلی جو ایسے اسلحے سے لیس ہو جو ان دونوں یعنی طبیعیاتی اور ماوراء الطبیعیاتی عوالم کے لیے ضروری ہے، تو پھر انسانیت روحانی امور کے ان ابطال اور اولیاء کے ہاتھوں ایک نئی بہار دیکھے گی اور یہ لوگ اس بہار کو ہر شے پر ترجیح دیں گے اور اس طرح دنیا ایک بار پھر مسکرا اٹھے گی اور ساری دنیا ایک ایسی نئی زندگی دیکھے گی جو اس کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک پھیل جائے گی۔
1۔ المنتخب من مسند عبن ین حمید، ص:333، ابویعلیٰ، مسند:390/3، الحاکم النیسابوری، المستدرک: 681، شعب الایمان:65/2۔
- Created on .