حیات بعد الموت پر عقیدے کے فوائد

پر امن سماجی تنظیم کیلئے اللہ پر ایمان کے بعد حیات بعد الموت پر ایمان لانا ضروری ہے ۔وہ لوگ جوحیات بعدالموت پر یقین نہیں رکھتے ایماندارانہ اور صاف ستھری زندگی گزارنے کی کوشش کیوں کریں ؟لیکن ہم میں سے وہ لوگ جو آخرت کی زندگی میں اپنے اعمال کی جوابدہی پر یقین رکھتے ہیں ایک منظم اور صاف ستھری زندگی گزارنے پوری کی کوشش کرتے ہیں ۔

قرآن کہتاہے :

”تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ سناتے ہو اور لوگو تم بھی جو کچھ کرتے ہو اس سب کے دوران ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں ۔کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میںایسی نہیں ہے نہ چھوٹی نہ بڑی جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفترمیں درج نہ ہو ۔“ 10:61))

ایسے فرشتے موجود ہیں جن کا کام ہمارے اعمال کا حساب رکھناہے ۔ اللہ تعالیٰ کو بھی ہمارے تمام اعمال کا علم ہے ۔ وہ لوگ جو اس چیز کو سمجھتے ہیں (اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں)دونوں دنیاﺅں میں حقیقی خوشی اور اطمینان حاصل کرسکیں گے ۔کوئی گھرانہ اور قوم جواس عقیدے پر یقین رکھنے والے افراد پر مشتمل ہوگی خود کو جنت میں رہتامحسوس کریں گے۔

حیات بعدالموت پر یقین نوجوانوں کو سطحی اور فضول کاموں میں وقت گزاری سے روکتا ہے اور عمر رسیدہ افراد جو قبر کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں ان کی زندگی میں امید بھر دیتاہے ۔حیات بعد الموت پر یقین بچوں کو اپنے پیاروں کی وفات کا دکھ جھیلنے میں مدد دیتا ہے ۔ بچے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کے وہ بچھڑجانے والے عزیز واقارب سے ایک بہتر دنیا میں پھر ملیں گے اور حیات بعدالموت کے عقید ے سے سکون اوراطمینان حاصل کرتے ہیں ۔ بلاامتیاز عمر جنس یاکسی مصنوعی تقسیم کے ہر انسان کو حیات بعد الموت پر یقین کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کے اسے ہوا‘پانی اور روٹی کی ضرورت ہے ۔کیونکہ یہ عقیدہ لوگوں کی پر امن زندگی کی جانب رہنمائی کرتا ہے اس لئے سماجی زندگی میں امن وسلامتی کے خواہاں دانشوروں کو اس پر زور دیناچاہیے ۔وہ لوگ جو قرآن میں بتائی گئی باتوں کی سچائی پر یقین رکھتے ہیں ذمہ دارانہ زندگی گزارتے ہیں اورایسے افراد پر مشتمل معاشرہ حقیقی اطمینان اور خوشی حاصل کرلیتاہے ۔

”پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ۔“ (99:7-8)

جب یہ عقیدہ نوجوانوں کے دلوں میں بٹھا دیا جاتا ہے تو وہ اپنی شناخت کی تلاش کی بجائے اپنی قوم اور انسانیت کی خدمت کی جستجو کرنے لگتے ہیں ۔بچے بہت حساس اور نازک ہوتے ہیں وہ بدقسمتی اور بدنصیبی کے سامنے انتہائی بے بس ہوتے ہیں اور اپنے اور اپنے کنبے کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے بھی بڑی آسانی سے متاثر ہوسکتے ہیں ۔جب ان کے گھر کا کوئی فرد ان سے بچھڑ جاتا ہے یا وہ یتیم ہوجاتے ہیں تو وہ شدید محرومی اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔میرے بچپن کے دنوں میں جب میری ایک بہن فوت ہوئی تو میں بری طرح ٹوٹ پھوٹ گیا ۔ میں اکثر اس کی قبر پر جایا کرتا اور دل کی گہرائی سے دعا کرتا :

” اے اللہ! اسے پھر سے زندہ کردے اور مجھے اس کا پیارا چہرہ دیکھنے دے یا مجھے بھی مرنے دے تاکہ میں اس سے مل سکوں “ تو پھر مرنے کے بعد جی اٹھنے اور اپنے پیاروں سے ملنے کے عقیدے کے علاوہ والدین بہن بھائیوں کی جدائی کے غم کو اور کس طرح سے کم کیا جاسکتا ہے ؟“

بچوں کو حقیقی اطمینان صرف اس وقت ملتا ہے جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کے پیارے اس دنیا سے جنت میں چلے گئے ہیں اور یہ کہ اگلی دنیا میں یہ ان سے پھر مل سکیں گے ۔

آپ ایک عمرہ رسیدہ شخص کا بچپن اور جوانی گزرجانے کا دکھ کیسے کم کریں گے ؟ آپ ان سے پہلے گزرجانے والے عزیز واقارب کی جدائی پر انہیں دلاسہ کیسے دیں گے ؟آپ ان کے دل سے موت اور قبر کا خوف کیسے دور کریں گے ؟ آپ ان کے دل سے موت کا خیال کیسے نکالیں گے جسے وہ شدت سے محسوس کرتے ہیں ؟ کیا نت نئی دنیاوی خوشیاںاور آسائشیں انہیں دلاسہ دے سکتی ہیں ؟ صرف یہ یقین کے قبر کسی کھلے منہ والے اژدھے کی طرح انہیں نہیں نگلے گی بلکہ یہ ایک دوسری اور بہتر دنیا کا دروازہ یا انتظار گاہ ہے انہیں اطمینان اور تسلی دے سکتا ہے ۔

قرآن پاک نے اپنے مخصوص اور دل موہ لینے والے انداز میں حضرت ذکریا علیہ السلام کے حوالے سے اس امر کا ذکر کچھ یوں کیا ہے :

” ذکر ہے اس رحمت کا جوب تیرے رب نے اپنے بندے ذکریا پر کی تھی جب اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا اس نے عرض کیا” اے پروردگار میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے اے پروردگار میں تجھ سے دعا مانگ کرکبھی نامراد نہیں رہا “ (19:2-5)

اس خدشے کے پیش نظر کے ان کے عزیز رشتہ دار ان کے مشن کے ساتھ پر خلوص نہ رہیں گے حضرت ذکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنے وارث کے طورراولادنرینہ کی دعا کی اور تمام بوڑھے لوگوں کی یہی دعا ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اور حیات بعد الموت پر ایمان ان کے لئے ایک امید افزا بات ہوتی ہے۔ ” موت سے مت ڈرو“کیونکہ موت کا مطلب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا ہونا نہیں ہے یہ تو صرف جہانوں کی تبدیلی ہے ۔زندگی کے تھکا دینے والے فرائض سے آزادی ہے، ایک لا فانی دنیا کا پاسپورٹ ہے جہاں ہر طرح کی خوبصورتی اور رحمت آپ کی منتظر ہے ۔وہ رحمن ذات جس نے آپ کو اس دنیا میں بھیجا آپ کو قبر کی تاریکی میں گم ہونے نہیں دے گی اور قبر کی تاریک راہداری ایک دوسری دنیا میں جا کھلے گی ۔ وہ ذات آپ کو اپنے پاس بلالے گی اور آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کی خوشی سے بہرہ مند کرے گی اور جنت کی تمام نعمتیں دے گی۔

صرف اسی بات سے ہی عمر رسیدہ انسانوں کی تشفی ہوسکتی ہے اور انہیں موت کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے پر آمادہ کرسکتی ہے ۔

ہماری خود مختاری جس کی مدد سے ہم اپنی زندگی کے رخ کا تعین کرتے ہیں ہمیں دیگر مخلوقات سے منفرد بناتی ہے ۔ہمارے ارادے اور عمل کی آزادی جو کہ رحمت خدا وندی کی ایک شکل ہے اگر ہم اسے صحیح طور پر استعمال کریں تو یہ ہمیں رحمت خداوندی کے ثمر کا حقدار بناسکتی ہے ۔حیات بعد الموت کا یقین ہی وہ عامل ہے جو ہمیں ارادے اور اختیار کا درست استعمال پر مجبور کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ ناجائز اور ناروا سلوک سے روکتا ہے ۔

سہل ابن سعدبتاتے ہیں کہ اللہ کے نبی کو ایک ایسے نوجوان کے بارے میں بتایا گیا جو کئی دنوں تک گھر کے اندر ہی رہتا نبی پاک ﷺ اس سے ملنے تشریف لے گئے ۔جب نبی پاک ﷺ اچانک اس کے سامنے نمودار ہوئے تو اس نے خود کو نبی پاک ﷺ کے بازوﺅں میں پھینک دیا اور جان دے دی۔

نبی پاکﷺ نے اپنے ساتھ کھڑے ساتھیوں سے فرمایا :

” اپنے دوست کے جسد خاکی کو سپرد خاک کردو ۔ جہنم کے خوف نے اسے شدید خوف میں مبتلا کردیا تھا۔ میں اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اللہ یقینا اسے جہنم کی آگ سے دور رکھے گا۔“ ( ابن کثیر تفسیر ‘ 3:539)

قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :

”اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا جنت اس کا ٹھکانا ہوگی” (79:40-41)

حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

” میں دو خوف اوردوامن ایک ساتھ نہیں رہنے دوں گا۔ “ (کنزالعمال 3:141)

با الفاظ دیگر جو لوگ اس دنیا میں اللہ کی سزا سے ڈرتے ہیں اگلی دنیا میں اس کی سزا سے محفوظ ہوں گے اور جو لوگ اس دنیا میں اس کی سزا سے نہیں ڈرتے وہاں اس سزا سے نہیں بچ سکیں گے ۔

حضرت عمر نے ایک نوجوان کو ظلم اور زیادتی کے خلاف جرات مندانہ انداز میں احتجاج اور مزاحمت کرتے دیکھا تو کہا ” کوئی بھی قوم جو نوجوانوں سے محروم ہو نیست و نابود ہوجائے گی ۔“

نوجوانوں میں انقلابی جوش ہوتا ہے ۔ اگر آپ انہیں خرافات اور عیاشیوں میں پڑ کر تباہ ہونے دیں تو آپ اپنی ہی قوم کے مستقبل کو تباہ کردیں گے ۔ حیات بعد الموت پر یقین انہیں ظلم و انا انصافی کرنے سے اور سطحی خوشیوں میں اپنی توانائیاں ضائع کرنے سے روکتا ہے اور ایک منظم ‘بامقصد اور پاک زندگی بسر کرنے میں ان کی رہنمائی کرتا ہے ۔

”حیات بعد الموت پر یقین ایک بیمار انسان کے دل میں امید پیدا کرتا ہے اس پر یقین رکھنے والا مریض لا علاج سوچتا ہے “ میں مررہا ہوں اور میری زندگی کا عرصہ کوئی طویل نہیں کرسکتا ہر ایک نے مرنا ہے خوش قسمتی سے میں ایک ایسی جگہ ( جنت) جارہا ہوں جہاں مجھے میری کھوئی ہوئی صحت اور جوانی دوبارہ مل جائے گی اور میں ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لطف اندوز ہو سکوں گا “ اس بات کے علم سے اللہ کے تمام پیارے بندے انبیاءاور اولیا ءاحساس تحفظ حاصل کرتے ہوئے موت کو خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہتے ہیں ۔اپنی زندگی کے آخر ی لمحات میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا !” اے اللہ میں ابدی زندگی میں تیری ابدی محفل کی دعا کرتا ہوں “ حضور پاک ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو ایک روز قبل بتایا کہ اللہ نے اپنے بندوں سے کہا کہ اس دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہو یا ان نعمتوں سے جو اس کے پاس اگلی دنیا کے لئے ہیں تو اللہ کے بندے نے اگلے جہاں کی نعمتوں کا انتخاب کیا “ ( السیرت النبویہ 2:642)

اور اللہ کا یہ بندہ رسول پاک ﷺ خود تھے صحابہ آپ کی بات کا مفہوم سمجھ گئے اور رونے لگے ۔

اسی طرح جب حضرت عمر مصر سے لے کر وسطی ایشیاءتک کے وسیع علاقے پر خلافت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے تو ایک مرتبہ انہوں نے گہری آہ بھرتے ہوئے اللہ سے دعا کی ” اے اللہ مجھ میں مزید ذمہ داری نبھانے کی سکت نہیں ہے میری جان لے لے اور اپنی بارگاہ میں بلالے “ اگلی دنیا کی ایسی گہری خواہش وہ دنیا جو ابدی نعمتوں سے مالا مال ہوگی اور جسے رب کائنات کے جلوﺅں نے مزید حسین بنادیا ہوگا انہیں چیزوں کی کشش تھی کہ رسول پاک ‘ حضرت عمر اور دوسرے کئی انسان اس دنیا کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے تھے ۔یہ دنیا خیر و شر صحیح اور غلط ‘حسن و بدصورتی ‘ظالم اور مظلوم کا مرکب ہے ظلم اور زیادتی کی کئی مثالیں نظروں سے اوجھل رہتی ہیں اور کئی مظلوم اپنے حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔صرف حیات بعد الموت پر یقین جہاں مکمل انصاف ہوگا ۔ظلم اور زیادتی کے شکار لوگوں کو دلاسہ دے سکتا ہے اور انہیں انتقام سے باز رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح معذوری اور بد قسمتی کے ہاتھوں پریشان لوگوں کے لئے بھی حیات بعد الموت پر یقین باعث اطمینان اور سکون ہوتا ہے اس لئے کہ وہ اس پر بات یقین رکھتے ہیں کہ ان کی مشکلات اور غم انہیں اندرونی طور پر پاک کرتے ہیں اور یہ کہ اس دنیا میں پیش آنے والی آفات سے ہونے والے نقصان کا ازالہ اگلے جہان کی نعمتوں سے کردیا جائے گا یعنی کہ اس دنیا میں ہونے والا نقصان راہ خدا میں خیرات کی طرح ہے ۔

حیات بعدالموت پر یقین ایک گھر کو جنت کے باغات میں بدل دیتا ہے۔ ایک ایسا گھر جہاں نوجوان دنیاوی خوشیوں کی تلاش میں ہوں جہاں بچوں کا مذہبی جذبات اور مذہبی کاموں سے کوئی تعلق یا واسطہ نہ ہو۔ جہاں والدین بھی دنیاوی خواہشات کی تکمیل میں کھوئے ہوئے ہوں۔ جہاں بوڑھوں کو اپنے جیسے بوڑھوں کے ساتھ یا نرسنگ ہوم میں رہنا پڑے کیونکہ ان کے پوتے پوتیاں ان کی خدمت کے لئے اردگرد موجود نہ ہوں ایسے گھر میں زندگی ایک اذیت ناک بوجھ بن جاتی ہے۔حیات بعد الموت پر یقین لوگوں کو ان کی گھریلو ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کرتا رہتا ہے اور ان ذمہ داریوں کی بجا آوری سے گھر پر باہمی محبت ‘لگاﺅ اور احترام کا ماحول چھا جاتا ہے ۔اس عقیدے پر ایمان سے میاں بیوی کے درمیان محبت گہری ہوجاتی ہے اور باہمی احترام کا جذبہ پیدا ہوتاہے ۔جسمانی حسن پر قائم محبت وقتی اور خاص اہمیت کی حامل نہیں ہوتی کیونکہ شادی کے تھوڑے ہی عرصے بعد یہ غائب ہوجاتی ہے لیکن اگر میاں بیوی یہ سوچیں کہ ان کا ازدواجی رشتہ آئندہ کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں بھی جاری رہے گا اور جہاں دونوں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جوان اور خوبصورت ہوں گے تو پھر دونوں کے مابین عمر رسیدگی اور جسمانی حسن کے زوال کے باوجود محبت قائم رہے گی۔ اس عقیدے پر قائم خانگی زندگی کنبے کے افراد میں یہ احساس پیدا کردیتی ہے جیسے وہ جنت میں رہ رہے ہوں اسی طرح اگر کوئی ملک خود کو اس عقیدے کے مطابق ڈھالتا اور منظم کرتا ہے تو پھر اس کے باسی خود کو افلاطون یا الفارابی کے تصوراتی معاشرے جسے اس نے ”المدینة الفضیلہ “کانام دیا، سے بھی زیادہ بہترمعاشرے میں محسوس کریں گے ۔یہ حضور پاک ﷺ کے زمانے میں مدینہ کی طرح یا حضرت عمر کے دورمیں ان کے زیر خلافت علاقوں کی طرح ہوگا ۔

اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے کہ نبی پاک ﷺ نے وہ معاشرہ کس طرح قائم کیا ہم ذیل میں حیات بعد الموت کے حوالے سے آپ کے چند ارشادات نقل کررہے ہیں :

”اے لوگو! تم ایک روز پھر زندہ کئے جاﺅگے ۔ ننگے پاﺅں ننگے بدن اور بغیرختنہ کے میری بات پوری توجہ سے سنو ! وہ جسے سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے ۔میں جو کہوں غور سے سنو ” میری امت میں سے بعض کو بائیں جانب سے پکڑ کر میرے سامنا لایا جائے گا میں کہوں گا ” اے اللہ یہ تو میرے ساتھی ہیں “ مجھے بتایا جائے گا ” آپﷺ نہیں جانتے کہ آپﷺ کے دنیا سے جانے کے بعد یہ کن خرافات میں پڑ گئے “ تب میں اللہ کے نیک بندے ( حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) کی طرح کہوں گا ” جب تک میں ان کے ساتھ رہا میں ان کے اعمال کا گواہ رہا لیکن آپ نے میری جان لے لی تو پھر ان کی زندگی کے نگران آپ بن گئے آپ ہی ہر چیز کے گواہ ہیں اگر آپ انہیں سزا دیتے ہیں تو یہ آپ کے بندے اور اگر آپ انہیں معاف کرتے ہیں تو آپ طاقت اور حکمت والے ہیں۔ “ (بخاری ‘ انبیاء 8:48)

”جب سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کی ہے ،اس وقت سے آدم کی اولاد کو موت سے زیادہ تلخ تجربہ کسی چیز کا نہیں ہوا ۔ تاہم موت آئندہ پیش آنے والے مراحل سے آسان ہے ۔ وہ ایسے خوف سے گزریں گے کہ ان کا جسم پسینے میں نہا جائے گا اور پسینے کی دھاریں ان کی ٹھوڑیوں کے گرد جمع ہوجائیں گی ۔ پسینے کا ایسا سمندر بن جائے گا کہ اس پر بحری جہاز تیر سکیں گے ۔“ ( احمد ابن حنبل ‘مسند 3:154)

”لوگوں کو تین گروہوں میں زندہ کیا جائے گا ۔ایک گروہ وہ ہوگا جو اللہ سے ڈرتے رہے ہوں گے لیکن اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوئے ہوں گے ۔ایک گروہ ان کا ہوگا جن سے اکثر خطائیں سرزد ہوتی رہی ہوں گی اور جو خچروں پر دو یا تین ،چار یا دس کی تعداد میں جنت میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے اور تیسرا گروہ ان انسانوں کا ہوگا جنہیں جہنم کی آگ میں اٹھایا جائے گا کیونکہ وہ ایسے گناہ کرتے رہے ہوں گے جن کی بناءپر وہ جہنم کے حقدار ہوں گے ۔اگر وہ دوپہر کو سونا چاہیں گے تو جہنم بھی ان کے ساتھ ہوگی ،رات ہوگی تب بھی جہنم کی آگ ان کے ساتھ ہوگی ،صبح کے وقت بھی جہنم کی آگ ان کے ساتھ ہی ہوگی شام کے وقت بھی یہ لوگ جہنم کی آگ میں جلےں گے ۔“ ( بخاری ‘رقاق 45)

اللہ کے نبیﷺ نے اپنے ساتھیوں کو اچھی طرح جہنم کے بارے میں بتایا اور جنت کی نعمتوں کے بارے میں انہیں بتا کر ان کے دل میں جنت جانے کی خواہش پیدا کی ۔ اس کے نتیجے میں ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے انعام اور سزا کا گہرا احساس پیدا ہوگیا ۔وہ مذہبی ذمہ داریوں کے حوالے سے بہت حساس تھے اور ان میں سے دو نے ایک مرتبہ اللہ کے نبی ﷺ سے آپس کا ایک مسئلہ حل کرنے کی درخواست کی ان کے بات سننے کے بعد اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:

”میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں اس لئے میں تمہارے بیانات کی روشنی میں فیصلہ کروں گا ۔ہوسکتا ہے تم میں سے کسی کا انداز بیان متاثر کن ہو البتہ اگلے جہان میں سچائی کو دیکھتے ہوئے بالکل صحیح فیصلہ تو اللہ کی ذات کرے گی ۔ جو شخص ناجائز کر رہا ہوگا اسے اس کی سزا ملے گی جبکہ بے گناہ اور معصوم کو اجر ملے گا ۔“ ( بخاری ‘شہادہ، 27)

یہ بات دونوں صحابہ کو اپنا حق چھوڑنے پر راضی کرنے کے لئے کافی تھی ۔نبی پاک ﷺ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ متنازعہ چیزوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کردیں اور پھر قرعہ اندازی کریں اور پھر جس کو جو ملے اسے دل سے اور کسی شکوہ شکایت کے بغیر قبول کرلے ۔

جب سعد ابن ربی غزوہ احد میں بری طرح سے زخمی ہوئے توآخری سانسیں لیتے وقت انہوں نے محمد ابن مسلم کے کان میں جو ان تک نبی پاکﷺ کا سلام لے کر آئے آہستہ سے کہا ” نبی پاک ﷺ کو میرا سلام کہنا ۔خدا کی قسم احد کے پہاڑوں کے پیچھے سے مجھے جنت کی خوشبو آرہی ہے“

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔